اسی لیے
تجھے دیتا ہوں داد پھدی کی،
کہ پوری ھو تری ھر اک مراد پھدی کی
کوئی نہ چوت سے لن کو نکال کر پھینکے
کبھی نہ پوری ہو یارا مراد پھدی کی
کبھی کبھی مرا مٹھ سے اچاٹ ھوتا ھے دل
کبھی کبھی بہت آتی ھے یاد پھدی کی،
لٹک گئے تیرے ٹٹے ھوئے ھیں لن مردہ۔
کہ جب سے گھر تیرے ڈالی ھے کھاد پھدی کی،
یہ دوست چوت کی خاطر جھگڑنے لگ گئے ھیں
تو وجہ بننے لگی ہے فساد، پھدی کی،
کہ اس کو چود کے سب دل کا بوجھ ھٹتا ھے
یہ بات اچھی ہے اس نامراد پھدی کی،
میں اس لیے بھی چدائی سے باز آ گیا تھا،
کہ اس کے شہر میں ملتی تھی داد پھدی کی،
No comments:
Post a Comment